غم سے نڈھال کیوں مِرے سرکار ہو گئے
ذکرِِ "وفا" نہ چھیڑ کہ "بیمار" ہو گئے
منزل سے جا لگے تو "سفر" یاد آ گیا
ساحل ہمارے واسطے منجھدار ہو گئے
دل کی لگی نہ جانیۓ ہم ہیں وفا شناس
ہر سو اداس شام کے چرچے رہے مگر
آئی تمہاری "یاد" تو "سرشار" ہو گئے
اک ٹک تمہی کو دیکھ رہے تھے مگر جناب
انگڑائی لے کے "نیند" سے بیدار ہو گئے
کل تک ہمارے ساتھ رہے تھے جو ہمسفر
غیروں کا بھیس اوڑھ کے اغیار ہو گئے
آنکھوں میں چبھ رہی ہے گئے خواب کی تھکن
زاہد سمجھ رہا ہے کہ "مے خوار" ہو گئے
شائستہ مفتی
No comments:
Post a Comment