پوری طرح سے اب کے تیار ہو کے نکلے
ہم چارہ گر سے ملنے "بیمار" ہو کے نکلے
جادو بھری جگہ ہے "بازار" تم نہ جانا
اک بار "ہم" گئے تھے بازار ہو کے نکلے
مٹی کے راستوں پہ اترے عمارتوں سے
اپنی "حقیقتوں" کو "جنگل" بنایا ہم نے
اور پھر کہانیوں کے کردار ہو کے نکلے
آخر کو زندگی کے قدموں میں بچھ گئے ہم
اور اس کی ٹھوکروں سے ہموار ہو کے نکلے
معشوق نے کرا دی کیا صلح عاشقوں میں؟
سارے "رقیب" آئے اور "یار" ہو کے نکلے
فرحت احساس
No comments:
Post a Comment