اس کی تو یہ عادت ہے کسی کا نہیں ہوتا
پھر اس میں عجیب کیا کہ ہمارا نہیں ہوتا
کچھ پیڑ بھی بے فیض ہیں اس راہگزر کے
کچھ دھوپ بھی ایسی ہے کہ سایا نہیں ہوتا
خوابوں میں جو اک شہر بنا دیتا ہے مجھ کو
کس کی ہے یہ تصویر جو بنتی نہیں مجھ سے
میں کس کا "تقاضا" ہوں کہ پورا نہیں ہوتا
میں شہر میں کس شخص کو جینے کی دعا دوں
جینا بھی تو سب کے لیے "اچھا" نہیں ہوتا
فرحت احساس
No comments:
Post a Comment