Sunday 26 July 2020

اس کی تو یہ عادت ہے کسی کا نہیں ہوتا

اس کی تو یہ عادت ہے کسی کا نہیں ہوتا
پھر اس میں عجیب کیا کہ ہمارا نہیں ہوتا
کچھ پیڑ بھی بے فیض ہیں اس راہگزر کے
کچھ دھوپ بھی ایسی ہے کہ سایا نہیں ہوتا
خوابوں میں جو اک شہر بنا دیتا ہے مجھ کو
جب آنکھ "کھلی" ہو تو وہ چہرا نہیں ہوتا
کس کی ہے یہ تصویر جو بنتی نہیں مجھ سے
میں کس کا "تقاضا" ہوں کہ پورا نہیں ہوتا
میں شہر میں کس شخص کو جینے کی دعا دوں
جینا بھی تو سب کے لیے "اچھا" نہیں ہوتا

فرحت احساس

No comments:

Post a Comment