کوئی "بلا" ہو درِ "یار" تک نہیں آتی
کہ دھوپ سایۂ دیوار تک نہیں آتی
نکل پڑا ہے کوئی سر خریدنے کے لیے
کہ جتنے پیسوں میں دستار تک نہیں آتی
تِرے بھی دل میں محبت کی آگ روشن ہے
عجیب باغ ہے اس باغ سے مہک تو کیا
کسی "پرند" کی "چہکار" تک نہیں آتی
میں گھر تک آتے ہی روز ٹوٹ جاتا ہوں
یہ وہ خبر ہے جو "اخبار" تک نہیں آتی
کاشف حسین غائر
No comments:
Post a Comment