جامن والیاں
روحِ شاعر آج پھر ہے وجد میں آئی ہوئی
آم کے باغوں پہ ہے کالی گھٹا چھائی ہوئی
مست بھنورا گونجتا پھرتا ہے کوہ و دشت پر
روح پھرتی ہے کسی وحشی کی گھبرائی ہوئی
خارِ صحرا فیضِ ابر و باد سے نکھرے ہوئے
خاکِ گلشن موجِ ابر و بُو سے اترائی ہوئی
بہہ رہی ہیں ندیاں ساون کے نغموں کی طرح
گا رہی ہیں کوئلیں موسم کی تڑپائی ہوئی
آ رہی ہیں ناز سے نوخیز جامن والیاں
انکھڑیوں میں اجنبیت، چال اٹھلائی ہوئی
عمر کے نشے سے کچھ کچھ نیند میں ڈوبی ہوئی
برق کی ہلچل سے کچھ کچھ ہوش میں آئی ہوئی
ابر میں لچکے ہوئے پودوں کا دست و پا میں لوچ
دھوپ کے تپتے ہوئے کھیتوں کی سنولائی ہوئی
دونوں ہاتھوں سے سنبھالے ہیں سروں کی ٹوکری
ہاتھ انگڑائی کی صورت، آنکھ شرمائی ہوئی
پائے نازک، راہ کے پانی سے یہ بھیگے ہوئے
پنڈلیاں، زورِ جوانی سے یہ بل کھاتی ہوئی
یہ جھجھک اٹھنا جوانوں کی نظر سے بار بار
یہ نگاہیں شہر کی گلیوں میں گھبرائی ہوئی
جوش ملیح آبادی
No comments:
Post a Comment