سر سے اترے نہیں پھول منزل کی دُھن ہمسفر بات سُن
راہ میں خار آئیں تو تلوؤں سے چُن، ہمسفر بات سن
دھوپ میں تو سفر سخت دشوار ہے بے شجر راہ کا
سر کی خاطر کوئی سوچ، سایہ ہی بُن، ہمسفر بات سن
رابطہ اپنا زرخیز مٹی سے رکھ، اور سرسبز رہ
کھا گیا کتنے سوکھے درختوں کو گُھن ہمسفر بات سن
کچھ بتا دل کہ دلی سے کس لکھنؤ کی طرف جا بسیں
کون بستی ہے جس پر برستا ہے ہُن، ہمسفر بات سن
ہر قدم پر امیر! اس طرح ٹھہرنا، سوچنا کس لیے؟
وقت چھلنی ہے اور اس میں پانی نہ پُن، ہمسفر بات سن
رؤف امیر
No comments:
Post a Comment