خوابوں سا کوئی خواب بنانے میں لگی ہوں
اک دشت میں ہوں پیاس بجھانے میں لگی ہوں
بتلاؤ کوئی اسم مجھے ردِ بلا کا
میں آخری کردار نبھانے میں لگی ہوں
اک عمر ہوئی پیڑ پہ دو نام لکھے تھے
اک عمر سے وہ نام مٹانے میں لگی ہوں
رکنے نہ کبھی پائے سفر روشنیوں کا
دریا میں چراغوں کو بہانے میں لگی ہوں
جس وقت سے آنے کا سنا ہے تیرا گھر میں
چیزوں کو میں رکھنے میں، اٹھانے میں لگی ہوں
جلتا بھی ہے، بجھتا بھی ہے، اڑتا بھی ہے جگنو
سورج کو یہ احساس دلانے میں لگی ہوں
بجھنے کو ہے اب خالی دِیا عمرِ رواں کا
میں ہوں کہ ہواؤں کو منانے میں لگی ہوں
وہ صحن میں افلاک لیے کب سے کھڑا ہے
میں چھت پہ ہوں بادل کو اڑانے میں لگی ہوں
شاہدہ دلاور شاہ
No comments:
Post a Comment