کچھ تو ہمت کرو طوفان اٹھاؤ یارو
بدنما چہروں کو آئینہ دکھاؤ یارو
توڑ ہی ڈالو یہ خاموشی کا جان لیوا طلسم
آپ بیتی، کوئی جگ بیتی سناؤ یارو
کیا خبر، دار سے پھر کون سلامت آئے
آج کی رات کوئی جشن مناؤ یارو
پھر وہی حبس کا موسم ہے مسلط ہم پر
پھر وہی وقت ہے تحریک چلاؤ یارو
ابنِ آدم ہیں سبھی کوئی نہیں ہے برتر
ذات کی اونچی فصیلوں کو گراؤ یارو
دشتِ تنہائی میں یوں ہم کو اکیلا کر کے
اس قدر لمبی مسافت پہ نہ جاؤ یارو
آج دربار سے یہ حکم ہوا ہے جاری
آج فیضان کا سر کاٹ کے لاؤ یارو
فیضان عارف
No comments:
Post a Comment