پلٹ کے آ کہ یہ آزار پھر رہے نہ رہے
جو آنکھ اب ہے طلبگار پھر رہے نہ رہے
نگاہ کر انہی تاریکیوں کے موسم میں
یہ روشنی مجھے درکار پھر رہے نہ رہے
سمیٹ لوں تِرے چہرے کی لَو نگاہوں میں
یہ منظرِ شفق آثار پھر رہے نہ رہے
کبھی تو پوچھ کسی ان کہی کے بارے میں
کہ دل میں خواہشِ اظہار پھر رہے نہ رہے
یہ راہِ دل ابھی تازہ ہے یارِ نرم قدم
گزر، یہ راستہ ہموار پھر رہے نہ رہے
عابد سیال
No comments:
Post a Comment