اِک آخری سفر کی کہانی ہَوا میں ہے
بکھرے ہوئے پَروں کی نشانی ہوا میں ہے
گُھلنے لگے ہیں سانس میں نمکین ذائقے
جیسے کسی کی آنکھ کا پانی ہوا میں ہے
آتی ہے اڑ کے آنکھ میں لاحاصلی کی ریت
اب تک گئے دنوں کی گرانی ہوا میں ہے
لکھنا ہے میں نے لہرتے پانی پہ اس کا نام
اس نے مِری شبیہہ بنانی ہوا میں ہے
چہرہ بچا کہ سنگ ہیں آندھی کے ہاتھ میں
مڑ کر نہ دیکھ کتنی روانی ہوا میں ہے
عابد سیال
No comments:
Post a Comment