کچھ پھول اگر اپنی کتابوں سے نکلتے
ہم لوگ بھی اجڑے ہوئے خوابوں سے نکلتے
ہم ان کے سوالوں میں تو الجھے ہی رہے ہیں
پھر کیسے بھلا ان کے جوابوں سے نکلتے
اک ہجر کا سایہ بھی تو آنکھوں میں بہت تھا
اے کاش کبھی ہم بھی عذابوں سے نکلتے
عاشق تھے، ہمیں عشق نے برباد کیا تھا
مئے کش تھے بھلا کیسے شرابوں سے نکلتے
کل رات مجھے خواب میں آ کر ہی ملے ہو
اے کاش کہ ہم تیرے سرابوں سے نکلتے
تم گھر کے دریچوں میں مہکتے ہی رہے ہو
خوشبو کی طرح تم بھی گلابوں سے نکلتے
راشد میری برسوں سے یہ خواہش ہی رہی ہے
یہ لوگ کبھی اپنے حجابوں سے نکلتے
راشد ترین
No comments:
Post a Comment