Thursday, 1 October 2020

کچھ پھول اگر اپنی کتابوں سے نکلتے

 کچھ پھول اگر اپنی کتابوں سے نکلتے

ہم لوگ بھی اجڑے ہوئے خوابوں سے نکلتے

ہم ان کے سوالوں میں تو الجھے ہی رہے ہیں

پھر کیسے بھلا ان کے جوابوں سے نکلتے

اک ہجر کا سایہ بھی تو آنکھوں میں بہت تھا

اے کاش کبھی ہم بھی عذابوں سے نکلتے

عاشق تھے، ہمیں عشق نے برباد کیا تھا

مئے کش تھے بھلا کیسے شرابوں سے نکلتے

کل رات مجھے خواب میں آ کر ہی ملے ہو

اے کاش کہ ہم تیرے سرابوں سے نکلتے

تم گھر کے دریچوں میں مہکتے ہی رہے ہو

خوشبو کی طرح تم بھی گلابوں سے نکلتے

راشد میری برسوں سے یہ خواہش ہی رہی ہے

یہ لوگ کبھی اپنے حجابوں سے نکلتے


راشد ترین

No comments:

Post a Comment