تاریک دیاروں میں اجالے کا پتہ ہیں
ہم لوگ محبت ہیں، مروت کی ادا ہیں
ہم دستِ محبت میں علمدارِ مساوات
ہم دور سے آتی ہوئی مانوس صدا ہیں
ہم نطقِ محبت میں ہیں الفاظِ پذیرائی
ہم چشمِ اخوت میں عنایت کی نگاہیں
ہر اک کو لگاتے ہیں گلے نام پر اس کے
سینہ بھی کشادہ ہے تو بازو بهی یہ وا ہیں
خوشبو کی طرح پھیلے ہیں ہم راہگزر پر
تاریکیٔ شب تار میں جگنو کی ضیا ہیں
تاراجِ محبت ہیں اٹھائے ہوئے کشکول
آوارۂ دنیا نہیں، الفت کے گدا ہیں
جھلسے ہوئے منظر میں ہیں سائے کی نشانی
گرتی ہوئی دیوارِ روایت کا پتہ ہیں
ہم کفر سمجھتے ہیں حقارت کی نظر کو
نفرت کی زمینوں میں عنایت کی فضا ہیں
کھل جائے گا اک بابِ اثر دل میں تمہارے
مانگو تو سہی ہم کو، ہمی حرفِ دعا ہیں
بجھتے ہیں گھڑی بھر کو جل اٹھنے کیلئے پھر
ہم لوگ ہواؤں کے نشیمن میں دیا ہیں
ظہیر احمد
No comments:
Post a Comment