ہوا سے کیسے کہوں کیا ملا بجھانے سے
میں تھک گیا ہوں دِیے پر دِیا جلانے سے
اسے پکار مِرے دل کہ جس نے پچھلے برس
کِیا تھا ترکِ تعلق کسی بہانے سے
تُو سوچ خود کہ جو ترکش پہ آن بیٹھا ہے
وہ بچ سکے گا کہاں تک ترے نشانے سے
گئے زمانے کی صحبت کا ہے اثر ہم پر
نئے دنوں میں بھی لگتے ہیں ہم پرانے سے
فرخ عدیل
No comments:
Post a Comment