مائل ہے دل جو زلف گرہ گیر کی طرف
دیوانے کا خیال ہے زنجیر کی طرف
سنتا نہیں زباں سے وہ قاصد کی میرا حال
کرتا نہیں خیال بھی تحریر کی طرف
ہے میرے دل کو ابروئے قاتل سے بسکہ انس
دائم مِرا خیال ہے شمشیر کی طرف
نوک مژہ کا یار کے زخمی ہوں اس لیے
سینے کو کر رکھا ہوں ہدف تیر کی طرف
جادو تِری نگاہ میں تقریر میں ہے سحر
عالم کا دل گیا تِری تقریر کی طرف
نورِ رخِ صنم ہے مِرے دل میں جاگزیں
بہرام اس سے محو ہوں تنویر کی طرف
بہرام جی
No comments:
Post a Comment