Saturday, 3 October 2020

کون سی بستی میں محوِ خواب تھے

 کون سی بستی میں محوِ خواب تھے


کون سی بستی میں محوِ خواب تھے

کون سے سپنے ادھورے چھوڑ کر

صبح کی آہٹ پہ جاگے نیند سے

ذائقوں کے کس نگر سے آیا تھا

گرم سانسیں چھوڑتا مشروبِ صبح

کس گلی کے موڑ پر ٹھہرے ذرا

مسکراہٹ، گنگناہٹ میں چھپا

کون سی کھڑکی پہ دستک دے، چلے

کس ہجومِ اجنبی میں گم ہوئے

کون سے لشکر تلے روندے گئے

کون سے دریا میں ڈوبے اور پھر

تیرتے، شل بازوؤں کے زور پر

کب، کہاں، کس کھردرے ساحل لگے

کون سی بستی میں آئے لوٹ کر

کون سے صحرائے نامحرم کی گرد

رنگ اڑے، مسلے ہوئے کپڑوں پہ تھی

درد اٹھائے، زخم کھائے جسم کو

ڈگمگائے، گڑبڑائے ذہن کو

شام آئی ہے تو کچھ بھی یاد نئیں


عابد سیال

No comments:

Post a Comment