تجھ کو سوچوں تو تِرے جسم کی خوشبو آئے
میری غزلوں میں علامت کی طرح تُو آئے
میں تجھے چھیڑ کے خاموش رہوں سب بولیں
باتوں باتوں میں کوئی ایسا بھی پہلو آئے
قرض ہے مجھ پہ بہت رات کی تنہائی کا
میرے کمرے میں کوئی چاند نہ جگنو آئے
لگ کے سوئی ہے کوئی رات مِرے سینے سے
صبح ہو جائے کہ جذبات پہ قابو آئے
چاہتا ہوں کہ مِری پیاس کا ماتم یوں ہو
پھر نہ اس دشت میں مجھ سا کوئی آہو آئے
اس کا پیکر کئی قسطوں میں چھپے ناول سا
کبھی چہرہ کبھی آنکھیں کبھی گیسو آئے
پھر مجھے وزن کیا جائے شہادت کے لیے
پھر عدالت میں کوئی لے کے ترازو آئے
اب کے موسم میں یہ دیوار بھی گر جائے شکیل
اس طرح جسم کی بنیاد میں آنسو آئے
شکیل اعظمی
No comments:
Post a Comment