کچھ بھی نہ جب دکھائی دے تب دیکھتا ہوں میں
پھر بھی یہ خوف سا ہے کہ سب دیکھتا ہوں میں
آنکھیں تمہارے ہاتھ پہ رکھ کر میں چل دیا
اب تم پہ منحصر ہے کہ کب دیکھتا ہوں میں
آہٹ عقب سے آئی اور آگے نکل گئی
جو پہلے دیکھنا تھا وہ اب دیکھتا ہوں میں
یہ وقت بھی بتاتا ہے، آدابِ وقت بھی
اس ٹوٹتے ستارے کو جب دیکھتا ہوں میں
اب یاں سے کون دے مِری چشمِ طلب کو داد
جس فاصلے سے بابِ طلب دیکھتا ہوں میں
ان پتلیوں کا قرض چکاتا ہوں، کیا کروں
بس دل سے دل ملاتا ہوں جب دیکھتا ہوں میں
ناکامِ عشق ہوں، سو مِرا دیکھنا بھی دیکھ
کم دیکھتا ہوں اور غضب دیکھتا ہوں میں
شاہین عباس
No comments:
Post a Comment