Saturday, 3 October 2020

کچھ بھی نہ جب دکھائی دے تب دیکھتا ہوں میں

 کچھ بھی نہ جب دکھائی دے تب دیکھتا ہوں میں

پھر بھی یہ خوف سا ہے کہ سب دیکھتا ہوں میں

آنکھیں تمہارے ہاتھ پہ رکھ کر میں چل دیا

اب تم پہ منحصر ہے کہ کب دیکھتا ہوں میں

آہٹ عقب سے آئی اور آگے نکل گئی

جو پہلے دیکھنا تھا وہ اب دیکھتا ہوں میں

یہ وقت بھی بتاتا ہے، آدابِ وقت بھی

اس ٹوٹتے ستارے کو جب دیکھتا ہوں میں

اب یاں سے کون دے مِری چشمِ طلب کو داد 

جس فاصلے سے بابِ طلب دیکھتا ہوں میں

ان پتلیوں کا قرض چکاتا ہوں، کیا کروں 

بس دل سے دل ملاتا ہوں جب دیکھتا ہوں میں

ناکامِ عشق ہوں، سو مِرا دیکھنا بھی دیکھ 

کم دیکھتا ہوں اور غضب دیکھتا ہوں میں


شاہین عباس

No comments:

Post a Comment