عین ممکن ہے یہ دنیا تجھے شہکار لگے
اس کی تعمیر میں ہم جیسے گنہگار لگے
دیکھنے میں تو بہت پھول تھے اس ٹہنی پر
چھو کے دیکھا تو سبھی پھول ہمیں خار لگے
میں نے تو زخم خریدے ہیں نہ بیچے ہیں کبھی
پھر بھی یہ دل کہ کوئی درد کا بازار لگے
اک جواں غم کا نتیجہ ہے کہ اکثر مجھ کو
راہ چلتا ہوا ہر شخص عزادار لگے
ناخدا نیند میں ہے، اور سمندر بیدار
سینۂ موج پہ کب دیکھیے پتوار لگے
ایسی تصویر بناؤں گا میں دریا کی عدیل
وہ جو اُس پار نظر آتا ہے اِس پار لگے
فرخ عدیل
No comments:
Post a Comment