بعد لٹنے کے ترا درد ہے لاچار کے پاس
یہ نشانی ہے تری اب ترے بیمار کے پاس
یہی معراجِ محبت ہے یہی حاصلِ عشق
سجدہ کر لینا مرا سنگِ درِ یار کے پاس
آخری وقت ہے دیدار تمہارا کر لوں
دو گھڑی کے لئے آ جائیے بیمار کے پاس
تیرے دیوانے کہاں جائیں ترے کوچے سے
چین ملتا ہے ترے سایۂ دیوار کے پاس
دل تو ہاتھوں سے گیا تھا تری الفت میں صنم
اب تو آنکھیں بھی نہیں تیرے طلبگار کے پاس
تو مسیحائی نہ کر ایک نظر دیکھ تو لے
تیرا بسمل ہے لبِ دم ترے بیمار کے پاس
اے فنا اس لیے مرنے کی دعا کرتا ہوں
لے کے جائے گی اجل مجھ کو مرے یار کے پاس
فنا بلند شہری
No comments:
Post a Comment