Thursday, 1 October 2020

سائیں اپنے نفس کو ہم نے یوں ہی نہیں ناکام کیا

 سائیں اپنے نفس کو ہم نے یوں ہی نہیں ناکام کیا 

عمر گزاری در بدری میں کب کس جا آرام کیا 

غیر تو آخر غیر ہیں یارو کیا سوچیں اب کس کے تئیں 

ہم نے کون جگہ اپنے کو پابند احکام کیا 

اہل خرد نے جشن بہاراں یوں بھی منایا اب کے برس 

جیب و گریباں چاک کیے اور دیوانوں میں نام کیا 

ہر در پہ اک بانگ لگاویں بھلا کرو بس بھلا کرو 

ایک ہی شکوہ ایک ہی نالۂ صبح کیا اور شام کیا 

اونچے اونچے محلوں سے کیا غرض ہے ہم بنجاروں کو 

ٹھنڈی چھایا دیکھ کے خود کو کبھی نہ زیرِ بام کیا 

میں ہی تھا اک آنکھ نہ بھاؤں وہ تو اب بھی یار ہیں تیرے 

جن لوگوں نے تیرا چرچا بازاروں میں عام کیا 

دکھ نا پہنچا کسی کو بابا تیرے خالد سے 

ان نے تو سو بار خوشی کو غم کے عوض نیلام کیا 


امان اللہ خالد

No comments:

Post a Comment