سائیں اپنے نفس کو ہم نے یوں ہی نہیں ناکام کیا
عمر گزاری در بدری میں کب کس جا آرام کیا
غیر تو آخر غیر ہیں یارو کیا سوچیں اب کس کے تئیں
ہم نے کون جگہ اپنے کو پابند احکام کیا
اہل خرد نے جشن بہاراں یوں بھی منایا اب کے برس
جیب و گریباں چاک کیے اور دیوانوں میں نام کیا
ہر در پہ اک بانگ لگاویں بھلا کرو بس بھلا کرو
ایک ہی شکوہ ایک ہی نالۂ صبح کیا اور شام کیا
اونچے اونچے محلوں سے کیا غرض ہے ہم بنجاروں کو
ٹھنڈی چھایا دیکھ کے خود کو کبھی نہ زیرِ بام کیا
میں ہی تھا اک آنکھ نہ بھاؤں وہ تو اب بھی یار ہیں تیرے
جن لوگوں نے تیرا چرچا بازاروں میں عام کیا
دکھ نا پہنچا کسی کو بابا تیرے خالد سے
ان نے تو سو بار خوشی کو غم کے عوض نیلام کیا
امان اللہ خالد
No comments:
Post a Comment