خود اپنی ذات کا نام و نشان بھول گئے
رہا ہوئے تو پرندے اڑان بھول گئے
اس انہماک سے کار زمیں میں محو ہوئے
زمیں پہ چھایا ہوا آسمان بھول گئے
ہر امتحان میں پہلا سبق تو یاد آیا
کتاب عشق کہیں درمیان بھول گئے
نہ ٹھہرنا ہی مناسب نہ اٹھ کے جانا ہی
بلا کے گھر میں ہمیں میزبان بھول گئے
اس اجنبی کی رفاقت میں ایسی خوشبو تھی
ہم اپنے سارے سفر کی تھکان بھول گئے
نہ کر نمود کی خواہش کہ یہ جہاں والے
بڑے بڑوں کا بھی نام و نشان بھول گئے
کچھ اس طرح غم عمر رواں نے خاک کیا
فراق و وصل کی سب داستان بھول گئے
جمیل یوسف
No comments:
Post a Comment