Friday 16 October 2020

میرے لہجے میں مرے زخم کی گہرائی ہے

 میرے لہجے میں مِرے زخم کی گہرائی ہے

روشنی رات کے آنگن میں اتر آئی ہے

پھر مجھے پیار کے ساحل پہ ٹھہرنا ہوگا

پھر تِرے دل کے دھڑکنے کی صدا آئی ہے

در و دیوار پہ کچھ عکس اتر آتے ہیں

میرے گھر میں عجب انداز کی تنہائی ہے

صرف پھولوں میں نہیں ہیں تیرے چہرے کے رنگ

ماہِ نو بھی تِری ٹھہری ہوئی انگڑائی ہے

وہ صبا سب جسے آوارہ کہا کرتے ہیں

تیرے آنچل کی مہک میرے لیے لائی ہے

قہقہہ بار رہو شعلۂ غم سے نہ ڈرو

ورنہ اس شہر ہنر میں بڑی رسوائی ہے


جاذب قریشی

No comments:

Post a Comment