تجدید
کسی دن چلیں گے
سمندر کے لمبے سفر پہ
دُخانی جہازوں کے اندر
ہوا جن کے عرشوں سے ٹکرا کے
تا دیر جاگے ہوؤں کو لپک اور آوارگی کا سندیسہ
سناتے سناتے بہت تیز بھاگے گی نیلے افق سے پرے
اک ابھرتے چمکتے
جزیرے کی جانب
کسی دن ملیں گے
کہانی کی لَو میں
حضوری سے لرزاں
کہانی کے معصوم بچے کو
بچے کے دادا کو
جن کے لیے ممکنہ حادثے کے پس و پیش میں
ریل گاڑی کی زنجیر کھینچی گئی تھی مگر ریل
رکنے سے معذور تھی
درد آنکھوں کی پگڈنڈیوں اور کانوں کی بہتی ہوئی
جھلیوں سے گزرنے لگا تو کھلا کہ لہو کے برابر میں
ہڈی کے گُودے سے بالشت کی دوریوں پر
دسمبر کا پلو سرکنے لگا ہے
کسی دن سنیں گے
زمیں کے ارادے
زمیں کی مرادی
جو خلقِ خدا کی جفا کے مقابل
کہیں استغاثے کی روداد کا متن ٹھہرے
کہیں زندگی میں دھڑکتی اکائی
کہیں اپنے آئینہ خانے میں ابتر
زمیں جو شکستہ دلوں کی زباں بھی
زمیں خود مؤذن بھی، اپنی اذاں بھی
فرخ یار
No comments:
Post a Comment