کتنے دریا بہائے آنکھوں نے
غم تو پھر بھی چھپائے آنکھوں نے
مر گئے تھے جو خواب پلکوں پر
ہیں جنازے اٹھائے آنکھوں نے
تیری نفرت بجھا نہیں سکتی
جو دیے تھے جلائے آنکھوں نے
دل کو چھلنی کیا مرے مرشد
تیر تھے جو چلائے آنکھوں نے
جب زباں نے زباں نہیں کھولی
عشق کے گیت گائے آنکھوں نے
دوستی کے لبادے میں امجد
کتنے دھوکے ہیں کھائے آنکھوں نے
امجد تجوانہ
No comments:
Post a Comment