Friday 25 December 2020

کتنے دریا بہائے آنکھوں نے

 کتنے دریا بہائے آنکھوں نے

غم تو پھر بھی چھپائے آنکھوں نے

مر گئے تھے جو خواب پلکوں پر

ہیں جنازے اٹھائے آنکھوں نے

تیری نفرت بجھا نہیں سکتی

جو دیے تھے جلائے آنکھوں نے

دل کو چھلنی کیا مرے مرشد

تیر تھے جو چلائے آنکھوں نے

جب زباں نے زباں نہیں کھولی

عشق کے گیت گائے آنکھوں نے

دوستی کے لبادے میں امجد

کتنے دھوکے ہیں کھائے آنکھوں نے


امجد تجوانہ

No comments:

Post a Comment