Thursday 24 December 2020

جو رخ سے پردہ ہٹاؤ تو کوئی بات بنے

 جو رخ سے پردہ ہٹاؤ تو کوئی بات بنے

ہمیں بھی جلوہ دکھاؤ تو کوئی بات بنے

ہمارے سامنے آؤ تو کوئی بات بنے

ہمارے ہوش اڑاؤ تو کوئی بات بنے

سنا ہے طور پر موسٰی گرے تھے سجدے میں

ہمیں بھی سجدہ کراؤ تو کوئی بات بنے

غموں کی آگ ہے دل میں جہان جلتا ہے

ذرا یہ آگ بجھاؤ تو کوئی بات بنے

عجیب ڈھنگ سے توڑا ہے دل محبت نے

اسے بھی آس بندھاؤ تو کوئی بات بنے

بہت اداس ہے تاریک ہے جہاں میرا

کہیں سے روشنی لاؤ تو کوئی بات بنے

خرد کے دیپ بجھے چار سو اندھیرا ہے

جلاؤ، دل ہی جلاؤ تو کوئی بات بنے

ازل سے نام ہی سنا ہے شراب وحدت کا

کبھی ہمیں بھی پلاؤ تو کوئی بات بنے

یوں ہی گزار دی زندگی تو کیا حاصل

کسی کے کام جو آؤ تو کوئی بات بنے

سنا ہے ہم نے دکھاتے ہو معجزے اکثر

میں گر گیا ہوں اٹھاؤ تو کوئی بات بنے

وہ جس میں نام تمہارا ہمارا آتا ہے

وہی فسانہ سناؤ تو کوئی بات بنے

تمہارا ترک محبت بھی نامکمل ہے

خیال میں بھی نہ آؤ تو کوئی بات بنے

فریب کھائے ہیں حیرت طرح طرح کے مگر

فریبِ عشق بھی کھاؤ تو کوئی بات بنے


حیرت فرخ آبادی

No comments:

Post a Comment