دل کا موسم زرد ہو تو، کچھ بھلا لگتا نہیں
کوئی منظر، کوئی چہرہ، خوش نما لگتا نہیں
دھندلے دھندلے، اجنبی سے لوگ آتے ہیں نظر
مدتوں کا آشنا بھی، آشنا لگتا نہیں
سخت مشکل ہو گیا ہے امتیازِ خوب و زشت
پھول سی پوشاک میں بد خُو برا لگتا نہیں
لوٹ کر آتے نہیں کیوں آشیانوں کی طرف
بھولے بھالے پنچھیوں کا کچھ پتا لگتا نہیں
یاسیت جب پھیل جائے مطلعِ افکار پر
راستہ کوئی بھی، اپنا راستہ لگتا نہیں
التجا کی ٹہنیاں ہوتی نہیں ہیں کیوں ہری
کیوں ثمر میری دعا میں اے خدا لگتا نہیں
ضمیر اظہر
No comments:
Post a Comment