ہزل
پڑے ہیں تھپڑ کے ساتھ جوتے بہت زیادہ بِلا ارادہ
کیا ہے رانجھے نے عقدِ ثانی کا جب ارادہ بلا ارادہ
طلب کیا دے کے دھمکیاں آج اس کی بیگم نے سوٹ چونکہ
تبھی ملاتا ہے لال مرچوں میں وہ بُرادہ بلا ارادہ
نہ پوچھ تعداد بالکوں کی، نواسیاں جس کی ہیں نواسی
پچاس پوتوں کا بن گیا ہے وہ آج دادا بلا ارادہ
نظامِ تعلیم کی خرابی سے ایسی چیزیں بھی بن رہی ہیں
گدھے پہ جیسے کسی نے سو من کا بوجھ لادا بلا ارادہ
کرپٹ بندے کو ووٹ بالکل نہ دیں گے ہم اگلی مرتبہ سے
کریں گے ہر بار اس ارادے کا ہم اعادہ بلا ارادہ
گزر نہ پائے گا ایک بلڈاگ کی وجہ سے، وہاں سے کوئی
گلی ہے لیلیٰ کی تین فٹ سے بھی کچھ کشادہ بلا ارادہ
حقوقِ نسواں حقوقِ مرداں کا کوئی چکر نہ کوئی جھگڑا
جدید لوگوں کے کیا ہی کہنے، ہیں نر نہ مادہ بلا ارادہ
تھی جان سے مارنے کی، کیدو چچا نے رانجھے کو وارننگ دی
اِدھر سے گر ایک بار گزرا، او نامُرادا، بلا ارادہ
سوال پوچھا گیا کہ ہے کون فیورٹ ایکٹریس تمہاری
ہمارے منہ سے جواب نِکلا "جیا پرادا" بلا ارادہ
ہیں سخت جان اور مشکلیں اختیار کرتے ہیں خود ہی، مثلاً
پسند کرتے نہیں وہ سگریٹ کبھی بھی سادہ بلا ارادہ
سمجھ گئی ہے عوام، جب لیڈران جیبیں کتر چکے ہیں
ہوا ہے کبڑے کو لات پڑنے سے کچھ افادہ بلا ارادہ
لٹا چکا ہے تمام دولت کھِلا کے برگر پِلا کے پیپسی
امیرزادی سے عاشقی میں غریب زادہ بلا ارادہ
ہے آپ نے خود خیال کرنا، نہ آئے گا کوئی بھی بچانے
سماعتوں کو تباہ کر دے چَول مبادا بلا ارادہ
کبھی بھی بیگم سے بحث مت کر، زباں کو تالا لگا ہمیشہ
اگر ہے ڈھائی قدم چلاتی وہ ہر پیادہ بلا ارادہ
قبا ظرافت کی اوڑھ کے کر رہا ہوں سنجیدہ شاعری میں
اتار پھینکا ہے اب شرافت کا ہر لبادہ بلا ارادہ
عرفان قادر
No comments:
Post a Comment