Tuesday, 22 December 2020

آخر شب کے مہمان

آخر شب کے مہمان


پھر رات کی لانبی پلکوں پر

تخیل کے موتی ڈھلتے ہیں

پھر وقت کا افسوں جاگا ہے

خوشیوں کے خزانے لٹتے ہیں

اور دل کے ضیافت خانے کے

ہر گوشے میں شمعیں جلتی ہیں

پھولوں سے سجی ہیں محرابیں

خوشیوں کی دہکتی منقل سے

تنویر کے ہالے بنتے ہیں

خوابیدہ دریچے کھلتے ہیں

دروازوں کے پردے ہلتے ہیں

مہمانوں کے قدموں کی آہٹ

ہر سمت سنائی دیتی ہے

اس محفل حسن و خوبی میں

میں ان سے مقابل ہوتی ہوں

یہ ہاتھ جو میرے ہاتھ میں ہیں

پھولوں سے زیادہ نازک ہیں

ان زلفوں کے امڈے یا دل میں

مہتاب سا چہرہ روشن ہے

تسلیم کو سر جھکتا ہے کوئی

یا شاخ ہوا سے لچکی ہے

چاندی کے کٹورے بجتے ہیں

یا اس کے لبوں پر جنبش ہے

ان آنکھوں نے مجھ کو دیکھا ہے

یا ٹوٹ کے تارے برسے ہیں

یہ رات جو میرے مہمانوں کا

اس طرح سواگت کرتی ہے

اس رات کے پھیلے دامن پر

میں شکر کے سجدے کرتی ہوں


رابعہ برنی

No comments:

Post a Comment