سر کٹا کر صفتِ شمع جو مر جاتے ہیں
نام روشن وہی آفاق میں کر جاتے ہیں
لاکھوں کا خون بہائیں گے وہ جب ہونگے جواں
جو لڑکپن میں لہو دیکھ کے ڈر جاتے ہیں
جنبشِ تیغِ نِگہ کی نہیں حاجت اصلاً
کام میرا وہ اشاروں ہی میں کر جاتے ہیں
ان کو عشاق ہی کے دل کی نہیں ہے تخصیص
کوئی شیشہ ہو پری بن کے اتر جاتے ہیں
برق کی طرح سے بے تاب جو ہیں اے نادر
تار گھر کس کی وہ لینے کو خبر جاتے ہیں
نادر لکھنوی
No comments:
Post a Comment