ہاں مِرا حال ہے برباد مگر میں تو نہیں
تجھ کو کرتا ہے کوئی یاد مگر میں تو نہیں
بار ہا خالقِ کونین تِری خدمت میں
پہنچی ہو گی مِری فریاد مگر میں تو نہیں
عہدِ حاضر میں لگے مصر کے بازاروں میں
بک گئی ہے مِری روداد مگر میں تو نہیں
کاش ہستی بھی مِری داد کے قابل ہوتی
شعر لیتے ہیں مِرے داد مگر میں تو نہیں
محترم لوگ مجھے فن کے سبب جانتے ہیں
محترم ہیں مِرے استاد مگر میں تو نہیں
دستِ حیدرؑ سے غلامی کی سند جن کو ملی
ہوں گے وہ حضرتِ مقداد مگر میں تو نہیں
سال کے ساتھ بدلنا نہیں آتا کاظم
ہاں بدل جاتے ہیں اعداد مگر میں تو نہیں
کاظم حسین کاظم
No comments:
Post a Comment