زندگی کیسے لگی دیوار سے
پوچھنا بھی کیا کسی دیوار سے
بس مجھے سر پھوڑنے کا شوق تھا
بات تھی دیوار کی دیوار سے
جو رکاوٹ تھی ہماری راہ کی
راستہ نکلا اسی دیوار سے
ٹوٹتے دل کی کہانی بھی کہی
یعنی پھر ٹوٹی ہوئی دیوار سے
آؤ ہم دیوارِ گِریہ کا پتہ
پوچھ لیتے ہیں کسی دیوار سے
دستکوں سے در تھے ایسے بے نیاز
لگ گئیں آنکھیں مِری دیوار سے
اس طرف سورج نکل آیا ہے کیا
آ رہی ہے روشنی دیوار سے
اظہر عباس
No comments:
Post a Comment