پردیس میں ہوں گھر کا پتہ یاد نہیں ہے
ہاں اک یہی اچھی میری افتاد نہیں ہے
حیراں ہیں کہ ہم آپ کو کیا پیش کریں گے
اب آپ کے قابل دلِ برباد نہیں ہے
سارے ہیں تیری زلفِ گِرہ گِیر کے قیدی
اس بزم میں تو کوٸی بھی آزاد نہیں ہے
کیسی تِری دنیا ہے یہ کیا راج ہے تیرا
کوٸی یہاں منصف نہیں فریاد نہیں ہے
عابد یہ کہاں آ کے رُکے ہو، جہاں پر
پانی نہیں، سایہ نہیں اور باد نہیں ہے
عابد جعفری
آٹھواں سمندر
No comments:
Post a Comment