Wednesday, 20 January 2021

مرے خیال میں مہتاب جاگے رہتے ہیں

 مِرے خیال میں مہتاب جاگے رہتے ہیں 

میں سو بھی جاؤں تو کچھ خواب جاگے رہتے ہیں

بس ایک خواب نے نیندیں سبھی چرا لی ہیں

اس ایک خواب سے بے خواب جاگے رہتے ہیں

کہاں پہ دفن کروں اپنے خوف کو جا کر

کہ نیند میں بھی تو اعصاب جاگے رہتے ہیں

کسی نظام میں آثار تو نہیں دکھتے

مگر تباہی کے اسباب جاگے رہتے ہیں

زمانے بھر کے لیے کچھ نہیں سہی، لیکن

نظر میں ماں کی کئی خواب جاگے رہتے ہیں

میں لوٹ جاتا ہوں ماضی میں بات کرنے کو

بچھڑ گئے ہیں جو احباب جاگے رہتے ہیں

سکون سطح پہ تو کھیلتا ہے دیپ اکثر 

درونِ آب، گو گرداب جاگے رہتے ہیں 


حنیف دیپ

No comments:

Post a Comment