کبھی کبھار ہنس بھی لیا کریں
میں کرپشن کی فضیلت کو کہاں سمجھا تھا
بحر ظلمات کو چھوٹا سا کنواں سمجھا تھا
پھر بجٹ اس نے گِرایا ہے ہتھوڑے کی طرح
وہ حکومت کو بھی لوہے کی دکاں سمجھا تھا
تاج محلوں کی جگہ تم نے بنائیں قبریں
لیڈرو! ہم نے تمہیں شاہ جہاں سمجھا تھا
کھڑکیاں توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
میرے دل کو جو کرائے کا مکاں سمجھا تھا
پائنچے جینز کے ٹخنوں سے بہت اوپر تھے
میں ثریا کو ثریا کا میاں سمجھا تھا
ماں نے بیٹی سے کہا تیری خطا ہے اس میں
تُو نے سسرال میں کیوں ساس کو ماں سمجھا تھا
یوں بڑھاپے میں نہ تم چھوڑ کے واپس جاؤ
بیویو! تم نے کبھی مجھ کو میاں سمجھا تھا
خالد عرفان
No comments:
Post a Comment