ستم کی تیغ پہ یہ دستِ بے نیام رکھا
گلِ شکست سرِ شاخِ انتقام رکھا
میں دل کو اس کی تغافل سرا سے لے آیا
اور اپنے خانۂ وحشت میں زیرِ دام آیا
نگار خانۂ تسلیم کیا بیاباں تھا
جہاں پہ سیلِ خرابی کو میں نے تھام رکھا
مژہ پہ خشک کیے اشک نامراد اس نے
پھر آئینے میں مِرا عکسِ لالہ فام رکھا
اسی فسانۂ وحشت میں آخر شب کو
میں تیغِ تیز رکھی اس نے نیم جام رکھا
افضال احمد سید
No comments:
Post a Comment