دل کا معاملہ وہی محشر وہی رہا
اب کے برس بھی رات کا منتظر وہی رہا
نومید ہو گئے تو سبھی دوست اٹھ گئے
وہ صیدِ انتقام تھا، در پر وہی رہا
سارا ہجوم پا پیادہ چوں کہ درمیاں
صرف ایک ہی سوار تھا رہبر وہی رہا
سب لوگ سچ ہے با ہنر تھے پھر بھی کامیاب
یہ کیسا اتفاق تھا اکثر وہی رہا
یہ ارتقا کا فیض تھا یا محض حادثہ
مینڈک تو فیل پا ہوئے اژدر وہی رہا
سب کو حروفِ التجا ہم نذر کر چکے
دشمن تو موم ہو گئے پتھر وہی رہا
بلراج کومل
No comments:
Post a Comment