کسے خبر تھی کہ خود کو وہ یوں چھپائے گا
اور اپنے نقش کو لہروں پہ چھوڑ جائے گا
خموش رہنے کی عادت بھی مار دیتی ہے
تمہیں یہ زہر تو اندر سے چاٹ جائے گا
کچھ اور دیر ٹھہر جاؤ خواب زاروں میں
وہ عکس ہی سہی لیکن نظر تو آئے گا
بچا سکو تو بچا لو یہ آسماں، یہ زمیں
ذرا سی دیر میں یہ اشک پھیل جائے گا
یہ اپنے دھیان میں رکھنا کہ میں نہ آیا تو
طلوعِ صبح کی خاطر کسے بلائے گا
بہت ہوا تو یہی ہو گا اے مِرے خورشید
وہ شخص جا کے کبھی لوٹ کر نہ آئے گا
عابد خورشید
No comments:
Post a Comment