رات کے آنچل پہ موتی ٹانکتی ہی رہ گئی
چاندنی سے چاند کو میں مانگتی ہی رہ گئی
قافلے یادوں کے کب کے جا چکے سب چھوڑ کر
خواب چنتی آنکھ ساماں باندھتی ہی رہ گئی
سر پٹختی پھر رہی تھی میں، ہوا اور تیری یاد
صحرا صحرا گھومتی اور ہانکتی ہی رہ گئی
پھول کو صیاد نے توڑا چھپا کر رکھ دیا
زندگی پردے سے آ کر جھانکتی ہی رہ گئی
ثمینہ گل
No comments:
Post a Comment