Thursday 25 February 2021

رات کے آنچل پہ موتی ٹانکتی ہی رہ گئی

 رات کے آنچل پہ موتی ٹانکتی ہی رہ گئی

چاندنی سے چاند کو میں مانگتی ہی رہ گئی

قافلے یادوں کے کب کے جا چکے سب چھوڑ کر

خواب چنتی آنکھ ساماں باندھتی ہی رہ گئی

سر پٹختی پھر رہی تھی میں، ہوا اور تیری یاد

صحرا صحرا گھومتی اور ہانکتی ہی رہ گئی

پھول کو صیاد نے توڑا چھپا کر رکھ دیا

زندگی پردے سے آ کر جھانکتی ہی رہ گئی


ثمینہ گل

No comments:

Post a Comment