سنو مسافر
راہ میں سفر کے ٹیک لگائے
لب پر اک پھول کو سجائے
مسکرا رہا ہوں
مسکرانا کیا ہے
بلبلانا کیا ہے
روتے رہنا
چلتے جانا
رکتے رکتے، پلٹتے جانا
ضد کی آڑ میں
چیختے جانا
قسمیں وعدے کرتے جانا
پٹخ پٹخ کر توڑتے جانا
جاناں جاناں کرتے جانا
اوس گل دھڑکتا ساون
خاک در میں ڈھلتے جانا
پس پامال کن کی آشنائی
صدائے دل کی روشنائی
سجا رہی ہے
بتا رہی ہے
سفر ابھی بہت بچا ہے
ہاتھ تھامو یہی بقاء ہے
طوبیٰ سہیل
No comments:
Post a Comment