وہ تو دُکھ دے کے ہمیں بھُول گیا ہوتا ہے
ہم نے پر سارا حساب اس کا رکھا ہوتا ہے
وصل کے لمحوں میں بھی ذہن سے جاتا نہیں پھر
اس نے جو کچھ ہمیں رنجش میں کہا ہوتا ہے
کچھ نہیں اس کا بگڑتا ہے جدائی سے اگر
ہم کو بھی کون سا کچھ فرق پڑا ہوتا ہے
چاہے جتنا بھی کرے چھپ کے کوئی وار مگر
اپنے دُشمن کا بہر حال پتہ ہوتا ہے
ہو گیا ہو گا بہت ساتھ نبھانا مشکل
ورنہ کون ایسے سہولت سے جدا ہوتا ہے
شازیہ نورین
No comments:
Post a Comment