تِرے پہلو میں لے آئی بچھڑ جانے کی خواہش
کہ گل کو شاخ تک لاتی ہے جھڑ جانے کی خواہش
تمہیں بسنے نہیں دیتا ہے بربادی کا دھڑکا
ہمیں آباد رکھتی ہے اجڑ جانے کی خواہش
خلا میں جو ستاروں کے غبارے اڑ رہے ہیں
انہیں پھیلائے رکھتی ہے سُکڑ جانے کی خواہش
کہاں تک دیکھتے ہیں، آسماں کی وسعتوں میں
اڑاتی ہے ہمیں مٹی میں گَڑ جانے کی خواہش
جواز جعفری
No comments:
Post a Comment