بجھنے لگی ہے شام ستارہ اداس ہے
اک دوست ہے جہاں میں ہمارا، اداس ہے
افسردگی میں ارض و سماں ڈھل گئے تمام
خاموش ہے نگاہ، نظارہ اداس ہے
دو نیم ہو چکا ہے کوئی آئینہ کہیں
عکسِ چراغِ ذات کا پارہ اداس ہے
اتری ہوئی ہے روح کے اندر تلک تھکن
یعنی کہیں وہ جان سے پیارا اداس ہے
بڑھنے لگی ہے موجِ نفس گھٹ رہا ہے دم
اس شمعِ بے نوا کا شرارہ اداس ہے
لپٹی ہوئے ہے زرد امر بیل شاخ سے
باغِ بدن یہ سارے کا سارا اداس ہے
شمائلہ بہزاد
No comments:
Post a Comment