بسترِ کرب پہ جب نیند جلائی میں نے
تب کسی خواب کی بنیاد اٹھائی میں نے
زخم ایسے تھے کہ ہر شخص کے آگے رکھے
بات ایسی تھی کہ خود سے بھی چھپائی میں نے
حرمتِ غم کے لیے خود کو اذیت بخشی
پھر اسی درد سے تسکین بھی پائی میں نے
میں نے زخموں کو کریدا، انہیں تازہ رکھّا
تب کہیں دشت میں کی نغمہ سرائی میں نے
اپنی کھڑکی سے یونہی خود کو پکارا کل شب
اور پھر خود کو وہ آواز سنائی میں نے
جانے والے سے رگِ جان کا بھی رشتہ تھا
یہ سمجھنے میں بہت دیر لگائی میں نے
نجم سمیر
No comments:
Post a Comment