Tuesday, 23 February 2021

حبس کی بے سر و سامانی پر

 حبس کی بے سر و سامانی پر

جل گئے غم کے اصفہانی پر

ہے وہ درگاہ کا ریشمی دھاگہ

گانٹھ اس کو نہیں لگانی پر

سب گئے، ہم نہیں گئے لیکن

ایک محفل تھی جاوِدانی پر

خواہشیں بھی وجود رکھتی ہیں

ہاں، وہ ہوتا ہے ناگہانی پر

منعقد کی ہے ماتمی محفل

ختم ہوتی ہوئی جوانی پر

جل رہی ہے کتابِ حسرت بھی

راکھ پڑتی ہے خوش گمانی پر

بات اس کی سمجھ نہیں آتی

ہم کو لگتا وہ گیانی پر

حق کی بابت جہاں سوال آئے

تمغہ ملتا ہے بے زبانی پر

آپ سا ڈھونڈنے کی خواہش ہے

ہم کو ملتا نہیں ہے ثانی پر

شب کی آغوش جس کو راس آئے

رشک آتا ہے ایسی رانی پر

زرد موسم میں پھول ہوں شاید

منحصر ہے یہ باغبانی پر

آگہی مسئلہ ہے وحشت کا

دھیان اپنا ہے بے دھیانی پر

ڈوب جائیں یا پار لگ جائیں

کشتیوں کا سفر ہے پانی پر

سانس لینے کی کس کو فرصت ہے

شعر کہنے ہوں گر روانی پر

کون رسوائیوں پہ ہنستا ہے؟

بات ممکن نہ تھی یہ مانی پر


فاطمہ سید

No comments:

Post a Comment