چلیں گے تھوڑا دم لے کر ذرا سورج نکلنے دو
بدلنے دو ذرا منظر، ذرا سورج نکلنے دو
صف ماتم بچھی ہے قتل شب پر بزم انجم میں
بپا ہے عرصۂ محشر ذراسورج نکلنے دو
اندھیرے چند لمحوں میں بساط اپنی اٹھا لیں گے
بہے گا نور سڑکوں پر ذرا سورج نکلنے دو
ابھی چہروں کے خد و خال دھندلائے ہوئے ہوں گے
نہیں واضح کوئی پیکر ذرا سورج نکلنے دو
ہمیں تعبیر بھی تو دیکھنی ہے اپنے خوابوں کی
مِرے ہمدم، مِرے دلبر ذرا سورج نکلنے دو
سنپولے تیرگی کے سرسراتے پھر رہے ہوں گے
ابھی ہر سمت رستوں پر، ذرا سورج نکلنے دو
کہاں ہیں وہ نئی صبحوں کی تعبیروں کے سوداگر
کہا کرتے تھے جو اکثر ذرا سورج نکلنے دو
سکڑتے بڑھتے سایوں کے پھر اپنوں اور پرایوں کے
بدلنے والے ہیں تیور ذرا سورج نکلنے دو
ابھی کھل جائے گا راہی بھلا کیا ہے بُرا کیا ہے
وہ رہزن ہے کہ ہے رہبر، ذرا سورج نکلنے دو
محبوب راہی
No comments:
Post a Comment