Wednesday, 24 February 2021

کبھی جو آنکھوں میں پل بھر کو خواب جاگتے ہیں

 کبھی جو آنکھوں میں پل بھر کو خواب جاگتے ہیں

تو پھر مہینوں مسلسل عذاب جاگتے ہیں

کسی کے لمس کی تاثیر ہے کہ برسوں بعد

مِری کتابوں میں اب بھی گلاب جاگتے ہیں

برائی کچھ تو یقیناً ہے بے حجابی میں

مگر وہ فتنے جو زیر نقاب جاگتے ہیں

ستم شعارو ہمارا تم امتحان نہ لو

ہمارے صبر سے صد انقلاب جاگتے ہیں

ہمیں خود اپنی سماعت پہ شرم آتی ہے

کہ منبروں سے اب ایسے خطاب جاگتے ہیں

یہ نیند لیتی ہے اخلاق وہ خراج کہ بس

جو خوب سوتے ہیں ہو کر خراب جاگتے ہیں


اخلاق بندوی

No comments:

Post a Comment