ایسے لمحے پر ہمیں قربان ہو جانا پڑا
ایک ہی لغزش میں جب انسان ہو جانا پڑا
بے نیازانہ گزرنے پر اٹھیں جب انگلیاں
مجھ کو اپنے عہد کی پہچان ہو جانا پڑا
زندگی جب نا شناسی کی سزا بنتی گئی
رابطوں کی خود مجھے میزان ہو جانا پڑا
ریزہ ریزہ اپنا پیکر اک نئی ترتیب میں
کینوس پر دیکھ کر حیران ہو جانا پڑا
ساعتوں کی آہنی زنجیر میں جکڑی ہوئی
سانس کی ترتیب پر قربان ہو جانا پڑا
وہ تو لمحوں کے سسکتے دائروں میں قید ہے
جس کو اپنے آپ سے انجان ہو جانا پڑا
اک پہیلی کی طرح نافہم تھے ہم بھی ظہیر
آپ کی خاطر مگر آسان ہو جانا پڑا
ظہیر غازی پوری
No comments:
Post a Comment