Saturday, 20 February 2021

ستم کی انتہا پر چل رہی ہے

 ستم کی انتہا پر چل رہی ہے

یہ دنیا کس خدا پر چل رہی ہے

دلوں پر قہر کا موسم ہے کیسا

مِری بستی دعا پر چل رہی ہے

لہو سے کھیلتے ہیں سب فرشتے

سیاست فاتحہ پر چل رہی ہے

زباں کاٹی گئی کس خوش دہن کی

کہ حجت ذائقہ پر چل رہی ہے

بدن میں سانس لیتا ہے سمندر

مِری کشتی ہوا پر چل رہی ہے

قناعت ہے کسی مفلس کی بیوی

ریاست داشتہ پر چل رہی ہے

غزل کی شاعری خورشید اکبر

بساط مرثیہ پر چل رہی ہے


خورشید اکبر

No comments:

Post a Comment