ہم نے غزلوں میں یوں سنوارا دکھ
سب کو ہونے لگا گوارا دکھ
کوئی محسوس تک نہیں کرتا
بانٹنا کس نے ہے ہمارا دکھ
دکھ میں اپنے بلائے جاتے ہیں
دکھ میں ہم نے تِرا پکارا دکھ
تیرے حالات اچھے ہیں شاید
ساری دنیا کو ہے تمہارا دکھ
خلد میں تو نہیں وجود اس کا
رب نے دنیا میں کیوں اتارا دکھ؟
وار کے سکھ اسے بچایا ہے
کتنا پیارا ہے یہ تمہارا دکھ
لوگ اس پر بھی مر مٹیں شاید
ہم نے تیرا اگر سنوارا دکھ
ساری دنیا کی خیر خواہی کا
پال رکھا ہے اک آوارہ دکھ
سُکھ بلاوا ہے تیرے ہونٹوں کا
تیری آنکھوں کا ہے اشارہ دکھ
سُکھ تھا مشروط بے وفائی پہ
کر لیا ہم نے پھر گوارا دکھ
زندگی آپ نے گزاری ہے
ہم نے شاید فقط گزارا دکھ
ہم ہیں دُکھ کی امان میں نجمی
بے سہاروں کا بے سہارا دکھ
نجم الحسن نجمی
No comments:
Post a Comment