Sunday, 21 February 2021

ہم نے غزلوں میں یوں سنوارا دکھ

 ہم نے غزلوں میں یوں سنوارا دکھ

سب کو ہونے لگا گوارا دکھ

کوئی محسوس تک نہیں کرتا

بانٹنا کس نے ہے ہمارا دکھ

دکھ میں اپنے بلائے جاتے ہیں

دکھ میں ہم نے تِرا پکارا دکھ

تیرے حالات اچھے ہیں شاید

ساری دنیا کو ہے تمہارا دکھ

خلد میں تو نہیں وجود اس کا

رب نے دنیا میں کیوں اتارا دکھ؟

وار کے سکھ اسے بچایا ہے

کتنا پیارا ہے یہ تمہارا دکھ

لوگ اس پر بھی مر مٹیں شاید

ہم نے تیرا اگر سنوارا دکھ

ساری دنیا کی خیر خواہی کا

پال رکھا ہے اک آوارہ دکھ

سُکھ بلاوا ہے تیرے ہونٹوں کا

تیری آنکھوں کا ہے اشارہ دکھ

سُکھ تھا مشروط بے وفائی پہ

کر لیا ہم نے پھر گوارا دکھ

زندگی آپ نے گزاری ہے

ہم نے شاید فقط گزارا دکھ

ہم ہیں دُکھ کی امان میں نجمی

بے سہاروں کا بے سہارا دکھ


نجم الحسن نجمی

No comments:

Post a Comment