میرے گھر میں امن، سکوں کی باتیں کرتا ہے
جانے کیا دیوانوں کی سی باتیں کرتا ہے
گلیاں چپ ہیں قاتل بھی خاموش ہوٸے تو کیا
سُن رکھا ہے خون بھی اپنی باتیں کرتا ہے
چیخ رہا ہے جھوٹ عدالت میں یہ دیکھو تو
جرم ہے کہ یہ شخص تو سچی باتیں کرتا ہے
آنکھ یہ ظالم لمبے لمبے خواب سجاتی ہے
دل بے چارہ چھوٹی چھوٹی باتیں کرتا ہے
آج نقیب یہ سچ کی آخری بُوند بھی خاک ہوٸی
سب کہتے ہیں یہ تو ٹیڑھی باتیں کرتا ہے
عارف نقیب
No comments:
Post a Comment